کچھ بھی دشوار نہیں عزم جواں کے آگے
آشیاں بنتے گئے برق تپاں کے آگے
زندگی نغمۂ دلکش ہے مگر اے ناداں
تو نے سیکھا ہی نہیں آہ و فغاں کے آگے
قصۂ بزم طرب تذکرۂ موسم گل
خوب ہیں یوں تو مگر سوختہ جاں کے آگے
ہم ہیں اور فصل خزاں فصل خزاں ہے اور ہم
ہم سے کیا پوچھتے ہو فصل خزاں کے آگے
دسترس عقل کی ہے سرحد ادراک سہی
منزلیں اور بھی ہیں وہم و گماں کے آگے
زحمت یک نگہ لطف کبھی تو اے دوست
ہم کو کہنا ہے بہت لفظ و بیاں کے آگے
یوں تو دوزخ میں بھی ہنگامے بپا ہیں لیکن
پھیکے پھیکے سے ہیں آشوب جہاں کے آگے
غزل
کچھ بھی دشوار نہیں عزم جواں کے آگے
حبیب احمد صدیقی