کچھ بے ترتیب ستاروں کو پلکوں نے کیا تسخیر تو کیا
وہ شخص نظر بھر رک نہ سکا احساس تھا دامن گیر تو کیا
کچھ بنتے مٹتے دائرے سے اک شکل ہزاروں تصویریں
سب نقش و نگار عروج پہ تھے آنکھیں تھیں زوال پذیر تو کیا
خوش ہوں کہ کسی کی محفل میں ارزاں تھی متاع بیداری
اب آنکھیں ہیں بے خواب تو کیا اب خواب ہیں بے تعبیر تو کیا
خواہش کے مسافر تو اب تک تاریکئ جاں میں چلتے ہیں
اک دل کے نہاں خانے میں کہیں جلتی ہے شمع ضمیر تو کیا
صحرائے تمنا میں جس کے جینے کا جواز ہی جھونکے ہوں
اس ریت کے ذروں نے مل کر اک نام کیا تحریر تو کیا
لکھتا ہوں تو پوروں سے دل تک اک چاندنی سی چھا جاتی ہے
قاصرؔ وہ ہلال حرف کبھی ہو پائے نہ ماہ منیر تو کیا
غزل
کچھ بے ترتیب ستاروں کو پلکوں نے کیا تسخیر تو کیا
غلام محمد قاصر