کچھ اور رنگ میں ترتیب خشک و تر کرتا
زمیں بچھا کے ہوا اوڑھ کے بسر کرتا
گل و شگفت کو آپس میں دسترس دیتا
اور آئنے کے لیے آئنہ سپر کرتا
چراغ کہنہ ہٹاتا فصیل مردہ سے
گیاہ خام پہ شبنم دبیز تر کرتا
وہ نیم نان خنک آب اور سگ ہم نام
میں زیر سبز شجر اپنا مستقر کرتا
وہ جس سے شہر کی دیوار بے نوشتہ ہے
میں اس کی شاخ تہیہ کو بے ثمر کرتا
میں چومتا ہوا اک عہد نامۂ منسوخ
کسی قدیم سمندر میں رہ گزر کرتا
غزل
کچھ اور رنگ میں ترتیب خشک و تر کرتا
افضال احمد سید