EN हिंदी
کچھ اپنی بات کہو کچھ مری سنو مت سو | شیح شیری
kuchh apni baat kaho kuchh meri suno mat so

غزل

کچھ اپنی بات کہو کچھ مری سنو مت سو

شاہد عشقی

;

کچھ اپنی بات کہو کچھ مری سنو مت سو
یہ رات پھر نہیں آنے کی دوستو مت سو

کسے خبر کہ صبا کیا پیام لے آئے
سدا دلوں کے دریچے کھلے رکھو مت سو

بجھیں جو شمعیں تو روشن کرو دلوں کے چراغ
نہ بجھنے والے ستاروں کا ساتھ دو مت سو

جو سن سکو تو سنو تشنہ روح کی فریاد
مثال ساغر مے دور میں رہو مت سو

خرد کا کہنا ہے سو جاؤ وہ نہ آئے گا
پکار دل کی یوں ہی جاگتے رہو مت سو

نہ سو سکیں جو ہم آوارگان کوچۂ شوق
تو تم بھی شہر کی شب تاب مہ‌ وشو مت سو

یہ جلتی بجھتی سی یادوں کی کہکشاں عشقیؔ
بکھر نہ جائے غزل ہی کوئی کہو مت سو