EN हिंदी
کچھ عجب سا ہوں ستم گر میں بھی | شیح شیری
kuchh ajab sa hun sitamgar main bhi

غزل

کچھ عجب سا ہوں ستم گر میں بھی

رؤف رضا

;

کچھ عجب سا ہوں ستم گر میں بھی
اس پہ کھلتا ہوں بدن بھر میں بھی

نئی ترتیب سے وہ بھی خوش ہے
خوبصورت ہوں بکھر کر میں بھی

آ مرے ساتھ مرے شہر میں آ
جس سے بھاگ آتا ہوں اکثر میں بھی

اب یہ پا پوش انا کاٹتی ہے
لو ہوا اپنے برابر میں بھی

جھلملا لے ابھی عجلت کیا ہے
اور کچھ دیر ہوں چھت پر میں بھی