کچھ ایسے تیرے بدن کا یہاں نشاں کھلے گا
کہ جس طرح سے سمندر میں بادباں کھلے گا
یہ سوچتے ہی مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
مرا نشان کہانی میں کب کہاں کھلے گا
گزرتے وقت کسی کو خبر نہیں تھی یہاں
کہ ایک دم سے دلوں پر یہ خاک داں کھلے گا
میں دائیں بائیں کسی اور سمت بھی دیکھوں
کسے خبر کہ کہاں سے یہ درمیاں کھلے گا
یہاں یہ کون تجھے یاد رکھے گا اے عزیزؔ
کہ تیرے بعد ہی یہ ذکر دوستاں کھلے گا

غزل
کچھ ایسے تیرے بدن کا یہاں نشاں کھلے گا
وقاص عزیز