کچھ ایسا بھی تو ہو جائے کبھی ایسا کرے کوئی
بنائے خود نشیمن اور پھر صحرا کرے کوئی
تمہارے نام کے ہم راہ میرا نام لے دنیا
مرا دل چاہتا ہے پھر مجھے رسوا کرے کوئی
اگر تو مل نہیں سکتا تو کچھ تدبیر ایسی ہو
مری آنکھوں سے تجھ کو عمر بھر دیکھا کرے کوئی
خرد پر لوگ نازاں ہیں جنوں پر فخر ہے مجھ کو
جنوں سے میرے اپنی عقل کا سودا کرے کوئی
یہ فطرت کب بھلا انسانیت سے میل کھاتی ہے
سفینہ ڈوبتا ہو دور سے دیکھا کرے کوئی
وہ دل میں جاگزیں ہے مستقل ہے جلوہ فرمائی
بھلا ایسے میں پھر کس طرح سے پردا کرے کوئی
ہجوم غم سنبھلتا ہی نہیں اے شمعؔ اب مجھ سے
کبھی تو کاش ایسا ہو مجھے تنہا کرے کوئی
غزل
کچھ ایسا بھی تو ہو جائے کبھی ایسا کرے کوئی
سیدہ نفیس بانو شمع