کچھ ابرووں پہ بل بھی ہیں خندہ لبی کے ساتھ
فرما رہے ہیں جور مگر دلکشی کے ساتھ
شامل ہو گر نہ غم کی خلش زندگی کے ساتھ
رکھے نہ کوئی ربط محبت کسی کے ساتھ
اس اہتمام جشن مشیت کو کیا کہوں
پیدا کیا ہے درد دل آدمی کے ساتھ
جینے نہ دیں حیات کی پیہم شرارتیں
انساں جو خود شریر نہ ہو زندگی کے ساتھ
ہر گام پر ہے لغزش پا کا بھی اک خطر
چلیے رہ وفا میں سلامت روی کے ساتھ
ممکن ہے مل ہی جائے مقام سکوں کہیں
تا مرگ ہم رکاب رہو زندگی کے ساتھ
باوصف ذکر کوثر و تسنیم کس لیے
واعظ کو ضد ہے مشغلۂ مے کشی کے ساتھ
معلوم اس کی تلخی انجام ہے مگر
انورؔ بلا خلوص نہ ملیے کسی کے ساتھ
غزل
کچھ ابرووں پہ بل بھی ہیں خندہ لبی کے ساتھ
انور صابری