کچھ اب کے برس اور ہواؤں کا چلن ہے
بوجھل ہے فضا وقت کے ماتھے پہ شکن ہے
دیتی ہیں دھواں اب بھی سلگتی ہوئی شامیں
ماحول پہ چھائی ہوئی ویسی ہی گھٹن ہے
ابھری ہے پھر اک ڈوبتے منظر کی کوئی یاد
سنگیت کی لے ہے کہ یہ سورج کی کرن ہے
نکھرا ہے ترا روپ مرے شعروں میں ڈھل کر
سنورا ہوا میرا بھی ہر اک نقش سخن ہے
مہکی ہوئی سانسوں میں بسی ہے کوئی مورت
خوشبوئے بدن ہے کہ یہ خوشبو کا بدن ہے
سینے سے لگا لو اسے پلکوں پہ سجا لو
اے چاندؔ یہ بیتے ہوئے لمحوں کی چبھن ہے
غزل
کچھ اب کے برس اور ہواؤں کا چلن ہے
مہندر پرتاپ چاند