کوشش ذرا سی کی جو دعاؤں کے ساتھ ساتھ
جلنے لگے چراغ ہواؤں کے ساتھ ساتھ
نکلے بہار اوڑھ کے کچھ خوش نما بدن
خوشبو بھی ہم سفر ہے قباؤں کے ساتھ ساتھ
چہرہ کشا ہوا ہے کوئی گیسوؤں کے بیچ
لگنے لگی ہے دھوپ بھی چھاؤں کے ساتھ ساتھ
شہروں سے مختلف ہیں یہ گاؤں کی لڑکیاں
بھرتی ہیں گاگریں بھی اداؤں کے ساتھ ساتھ
یوں تو میں اس دیار سے کچھ بھی نہ لا سکا
کچھ خاک لگ کے آ گئی پاؤں کے ساتھ ساتھ
غزل
کوشش ذرا سی کی جو دعاؤں کے ساتھ ساتھ
محمود تاثیر