کوئی زخم کھلا تو سہنے لگے کوئی ٹیس اٹھی لہرانے لگے
یہ کس کی دعا کا فیض ہوا ہم کیا کیا کام دکھانے لگے
دل زار اسی بستی میں چل ترے نام کی سرسوں پھولی ہے
چاندی کی سڑک پر چلتے ہوئے اب پاؤں ترے کمھلانے لگے
کوئی ڈوب گیا تو کیا ڈوبا کوئی پار اترا تو کیا اترا
پر کیا کہیے دل دریا کی جو پاؤں دھرے اترانے لگے
ابھی شام ذرا سی مہکی ہے پر کیا کہئے کیا جلدی ہے
ابھی رات پڑاؤ بھی آگے ہے اور خواب بلاوے آنے لگے
تم کون سے حافظؔ و غالبؔ ہو تم میرؔ کبیرؔ کہاں کے ہو
تمہیں پہلا سبق بھی یاد نہیں اور فن کاری دکھلانے لگے

غزل
کوئی زخم کھلا تو سہنے لگے کوئی ٹیس اٹھی لہرانے لگے
رؤف رضا