کوئی امید نہ بر آئی شکیبائی کی
اس نے باتوں میں بہت حاشیہ آرائی کی
عشق دن رات رہا کیف و طرب میں سرشار
حسن نے سلطنت عشق پہ دارائی کی
نہ ملا پر نہ ملا اپنے مسائل کا حل
آستانوں پہ بہت ہم نے جبیں سائی کی
آہ اے سوز دروں میرے جنوں سے اب تک
منزلیں سر نہ ہوئیں بادیہ پیمائی کی
سوچ کا لوچ کبھی ان کو میسر نہ ہوا
بعض لوگوں نے فقط قافیہ پیمائی کی
کار بے کار ہوئی بس میں سفر کرتا ہوں
یہ بھی اک صورت بے کیف ہے مہنگائی کی
شعر کہتا رہوں بہتا رہوں اپنی رو میں
چھیڑ چلتی رہے احساس کی پروائی کی
ایک شعر اور سنا دے کہ زمانے بھر میں
دھوم ہے تیرے تغزل کی توانائی کی
تنگ ظرفی ہے مرے وہم کا ٹھہرا پانی
ٹھہرے پانی پہ جمی کائی ہے خود رائی کی
وا دریغا کہ ذرا قدر نہ کی دنیا نے
کرشن موہنؔ ترے عرفان کی گہرائی کی

غزل
کوئی امید نہ بر آئی شکیبائی کی
کرشن موہن