EN हिंदी
کوئی تم جیسا تھا ایسا ہی کوئی چہرا تھا | شیح شیری
koi tum jaisa tha aisa hi koi chehra tha

غزل

کوئی تم جیسا تھا ایسا ہی کوئی چہرا تھا

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

کوئی تم جیسا تھا ایسا ہی کوئی چہرا تھا
یاد آتا ہے کہ اک خواب کبھی دیکھا تھا

رات جب دیر تلک چاند نہیں نکلا تھا
میری ہی طرح سے سایہ بھی مرا تنہا تھا

جانے کیا سوچ کے تم نے مرا دل پھیر دیا
میرے پیارے اسی مٹی میں مرا سونا تھا

وہ بھی کم بخت زمانے کی ہوا لے کے گئی
میری آنکھوں میں مری مے کا جو اک قطرہ تھا

تو نہ جاگا مگر اے دل ترے دروازے پر
ایسا لگتا ہے کوئی پچھلے پہر آیا تھا

تیری دیوار کا سایہ نہ خفا ہو مجھ سے
راہ چلتے یوں ہی کچھ دیر کو آ بیٹھا تھا

اے شب غم مجھے خوابوں میں سہی دکھلا دے
میرا سورج تری وادی میں کہیں ڈوبا تھا

اک مری آنکھ ہی شبنم سے شرابور رہی
صبح کو ورنہ ہر اک پھول کا منہ سوکھا تھا

تم ذرا تھام لو آ کر کبھی پیمانۂ جاں
دیکھو دیکھو مرے ہاتھوں سے ابھی چھوٹا تھا