EN हिंदी
کوئی تو ہے کہ نئے راستے دکھائے مجھے | شیح شیری
koi to hai ki nae raste dikhae mujhe

غزل

کوئی تو ہے کہ نئے راستے دکھائے مجھے

رشید نثار

;

کوئی تو ہے کہ نئے راستے دکھائے مجھے
ہوا کے دوش پہ آئے غزل سنائے مجھے

کسے خبر ہے کہ جیتا ہوں جاگتا ہوں میں
وہ ایک شخص ہر اک موڑ پر بچائے مجھے

لرزتے پاؤں بھی میرے عصا بدست بھی میں
وہ بازوؤں پہ اٹھائے کبھی چلائے مجھے

ہے اس کے نام کی مالا مرے لبوں کا سبو
میں اس کو شعر سناؤں وہ گنگنائے مجھے

وہ آئنہ ہے تو عکس سحر ہوں میں لیکن
وہ اپنے آپ کو دیکھے کبھی سجائے مجھے

دکھوں کے سرد نوالے غموں کی گرم زباں
ہنسی ہنسی میں چھپائے کبھی دکھائے مجھے