کوئی تو آ کے رلا دے کہ ہنس رہا ہوں میں
بہت دنوں سے خوشی کو ترس رہا ہوں میں
سحر کی اوس میں بھیگا ہوا بدن تیرا
وہ آنچ ہے کہ چمن میں جھلس رہا ہوں میں
قدم قدم پہ بکھرتا چلا ہوں صحرا میں
صدا کی طرح مکین جرس رہا ہوں میں
کوئی یہ کہہ دے مری آرزو کے موتی سے
صدف صدف کی قسم ہے برس رہا ہوں میں
حیات عشق مجھے آج اجنبی نہ سمجھ
کہ سایہ سایہ ترے پیش و پس رہا ہوں میں
نفس کی آمد و شد بھی ہے سانحہ کی طرح
گواہ رہ کہ ترا ہم نفس رہا ہوں میں
جہاں بھی نور ملا کھل اٹھا شفق کی طرح
جہاں بھی آگ ملی خار و خس رہا ہوں میں
غزل
کوئی تو آ کے رلا دے کہ ہنس رہا ہوں میں
شاذ تمکنت