کوئی تصور میں جلوہ گر ہے بہار دل میں سما رہی ہے
نفس نفس گنگنا رہا ہے نظر نظر مسکرا رہی ہے
جھکی جھکی سی نگاہ قاتل ہزار غمزے دکھا رہی ہے
نہ جانے جاگا ہے بخت کس کا یہ کس کو بسمل بنا رہی ہے
نہیں ہے اب تاب ضبط باقی کہیں میں توبہ نہ توڑ بیٹھوں
ترا اشارہ نہیں یہ ساقی تو کیوں گھٹا مسکرا رہی ہے
نہ پوچھ حالت مریض غم کی گھڑی میں کچھ ہے گھڑی میں کچھ ہے
طبیب تشویش میں پڑا ہے قضا کھڑی مسکرا رہی ہے
مری شب غم کا پوچھنا کیا عجیب پیش نظر ہے منظر
یہ زندگی جھلملا رہی ہے کہ نیند تاروں کو آ رہی ہے
یہ ہر ادا پائمال ہو کر بھی دل کو ہے ذوق پائمالی
قدم قدم پر تری جوانی عجیب فتنے جگا رہی ہے
ہوا کچھ ایسی چلی ہے فیضیؔ تمیز اپنوں کی اب ہے مشکل
مری تمنا بھی کچھ خفا ہے وفا بھی دامن چھڑا رہی ہے
غزل
کوئی تصور میں جلوہ گر ہے بہار دل میں سما رہی ہے
فیضی نظام پوری