کوئی تعمیر کی صورت نکالو
کوئی تازہ بنائے عشق ڈالو
بلاتی ہیں تمہیں یادیں پرانی
چراغ رفتگاں فرصت نکالو
مجھے چہروں سے خوف آنے لگا ہے
مرے کمرے سے تصویریں ہٹا لو
یہ دریا ہے گزر جانا ہے اس کو
مسافر ہو تم اپنا راستہ لو
کہاں اب وہ لباس وضع داری
بہت جانو اگر غربت چھپا لو
وفا قیمت نہیں جو لوٹ آئے
تم اپنا از سر نو جائزہ لو
نہیں آزار جاں کوئی تو مرزا
کسی دیوار کا سایہ اٹھا لو
غزل
کوئی تعمیر کی صورت نکالو
رسا چغتائی