کوئی سنے نہ سنے عرض حال کرتا جا
نہ رک جواب کی خاطر سوال کرتا جا
سمندروں کو ہوا میں اچھال دے اک بار
تو با ہنر ہے تو یہ بھی کمال کرتا جا
بدل دے ہجر کی ساعت کو وصل لمحوں میں
بنا کے کام کو آساں محال کرتا جا
تو بے مثال اگر ہے تو مجھ میں ظاہر ہو
مجھے بھی اپنی طرح بے مثال کرتا جا
قریب آ کہ اجالوں کے ہار پہنا دوں
مجھے اسیر شب لا زوال کرتا جا
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے دل
ملے ہیں زخم تو خود اندمال کرتا جا
یہیں کہیں ترا ماضی بھی سانس لیتا ہے
گزرنے والے بس اتنا خیال کرتا جا
ترا ہنر تری دانائی بد دعا ہے امامؔ
زوال تیرا مقدر کمال کرتا جا
سخن نواز مرے نکتہ چیں مرے ناقد
مجھے شکار عتاب و جلال کرتا جا
بہت سے تیر ہیں تیری کماں میں قید اب بھی
مرے لہو سے قبا اپنی لال کرتا جا
مرے زوال پہ کر ثبت آخری تحریر
یہ کار نیک بھی اے لا زوال کرتا جا
غزل
کوئی سنے نہ سنے عرض حال کرتا جا
مظہر امام