کوئی ستارۂ گرداب آشنا تھا میں
کہ موج موج اندھیروں میں ڈوبتا تھا میں
اس ایک چہرے میں آباد تھے کئی چہرے
اس ایک شخص میں کس کس کو دیکھتا تھا میں
نئے ستارے مری روشنی میں چلتے تھے
چراغ تھا کہ سر راہ جل رہا تھا میں
سفر میں عشق کے اک ایسا مرحلہ آیا
وہ ڈھونڈتا تھا مجھے اور کھو گیا تھا میں
تمام عمر کا حاصل سراب و تشنہ لبی
مرا قصور یہی تھا کہ سوچتا تھا میں
بگڑ رہا تھا میں دنیا کے زاویے سے مگر
اک اور زاویہ تھا جس سے بن رہا تھا میں
نہیں رہا میں ترے راستے کا پتھر بھی
وہ دن بھی تھے ترے احساس میں خدا تھا میں
مجھے گلہ نہ کسی سنگ کا نہ آہن کا
اسی نے توڑ دیا جس کا آئینہ تھا میں
غزل
کوئی ستارۂ گرداب آشنا تھا میں
سلیم احمد