کوئی سرد ہوا لب بام چلی
پھر خواہش بے انجام چلی
کیا خاک سکوں سے ناؤ چلے
جب موج ہی بے آرام چلی
وہ بات جو ساری عمر کی تھی
بس ساتھ مرے دو گام چلی
اک حرف غلط کو چھوتے ہی
میں مثل خیال خام چلی
اب رات سے مل کر پلٹوں کیا
جب صبح سے میں تا شام چلی
خود ڈھ گئی وہ دیوار مگر
گرتے ہوئے گھر کو تھام چلی
غزل
کوئی سرد ہوا لب بام چلی
شاہدہ حسن