کوئی سچے خواب دکھاتا ہے پر جانے کون دکھاتا ہے
مجھے ساری رات جگاتا ہے پر جانے کون جگاتا ہے
کوئی دریا ہے جس کی لہریں مجھے کھینچ رہی ہیں اور کوئی
مری جانب ہاتھ بڑھاتا ہے پر جانے کون بڑھاتا ہے
کبھی جائے نماز کی بانہوں میں کبھی حمد درود کی چھاؤں میں
کوئی زار و زار رلاتا ہے پر جانے کون رلاتا ہے
وہی بے خبری وہی جیون کا بے انت سفر اور ایسے میں
کوئی اپنی یاد دلاتا ہے پر جانے کون دلاتا ہے
کہیں اس معلوم سی دنیا میں کوئی نامعلوم سی دنیا ہے
کوئی اس کے بھید بتاتا ہے پر جانے کون بتاتا ہے
مری تنہائی میں ایک نئی تنہائی ہے جس کے رنگوں میں
کوئی اپنے رنگ ملاتا ہے پر جانے کون ملاتا ہے
کوئی کہتا ہے یہ رستہ ہے اور تیرے لیے ہے یہ رستہ
کوئی اس میں خاک اڑاتا ہے پر جانے کون اڑاتا ہے
کوئی کہتا ہے یہ دنیا ہے اور تیرے لیے ہے یہ دنیا
کوئی اس سے خوف دلاتا ہے پر جانے کون دلاتا ہے
کوئی کہتا ہے اس مٹی میں کئی خواب ہیں اور ان خوابوں سے
کوئی بیٹھا نقش بناتا ہے پر جانے کون بناتا ہے
کوئی ہر شے کے سینے میں کہیں موجود ہے ظاہر ہونے کو
کوئی اپنا آپ چھپاتا ہے پر جانے کون چھپاتا ہے
کوئی دیکھا ان دیکھا ہر پل چپ چاپ لکھے جاتا ہے مگر
کوئی مجھ میں شور مچاتا ہے پر جانے کون مچاتا ہے
مجھے دنیا اپنی چھب دکھلانے روز چلی آتی ہے مگر
کوئی دونوں بیچ آ جاتا ہے پر جانے کون آ جاتا ہے
غزل
کوئی سچے خواب دکھاتا ہے پر جانے کون دکھاتا ہے
سلیم کوثر