EN हिंदी
کوئی رکھتا ہی نہیں پھر بھی رہا کرتا ہے | شیح شیری
koi rakhta hi nahin phir bhi raha karta hai

غزل

کوئی رکھتا ہی نہیں پھر بھی رہا کرتا ہے

ترکش پردیپ

;

کوئی رکھتا ہی نہیں پھر بھی رہا کرتا ہے
اے مرے دل تو بھلا ہے سو بھلا کرتا ہے

تم نے تو آپ ہی پنجرے کو کھلا چھوڑ دیا
کوئی ایسے بھی پرندوں کو رہا کرتا ہے

اس کی ہر بات بھلا دینا ضرورت ہے مری
پھر بھی جو دل ہے اسے یاد سوا کرتا ہے

اب وہ پہلے سے مناظر بھی نظر آئیں کیا
وہ کنھی اور نگاہوں سے تکا کرتا ہے

کیا کبھی تم نے کسی ٹھگ سے محبت کی ہے
ایک ترکشؔ ہے جو دلی میں ہوا کرتا ہے