EN हिंदी
کوئی رفیق بہم ہی نہ ہو تو کیا کیجے | شیح شیری
koi rafiq baham hi na ho to kya kije

غزل

کوئی رفیق بہم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

مصطفی زیدی

;

کوئی رفیق بہم ہی نہ ہو تو کیا کیجے
کبھی کبھی ترا غم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

ہماری راہ جدا ہے کہ ایسی راہوں پر
رواج نقش قدم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

ہمیں بھی بادہ گساری سے عار تھی لیکن
شراب ظرف سے کم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

تباہ ہونے کا ارماں سہی محبت میں
کسی کو خوئے ستم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

ہمارے شعر میں روٹی کا ذکر بھی ہوگا
کسی کسی کے شکم ہی نہ ہو تو کیا کیجے