EN हिंदी
کوئی پوچھے نہ ہم سے کیا ہوا دل | شیح شیری
koi puchhe na humse kya hua dil

غزل

کوئی پوچھے نہ ہم سے کیا ہوا دل

ریاضؔ خیرآبادی

;

کوئی پوچھے نہ ہم سے کیا ہوا دل
ہوا کیا لٹ گیا دل مٹ گیا دل

یہ کہہ کر دے دیا مجھ کو مرا دل
ہمیں کوسے گا دے گا بد دعا دل

مرنا دے جائے گی مجھ کو تری آنکھ
مزا دے جائے گا تجھ کو مرا دل

چمن میں جو کھلا گل میں یہ سمجھا
کہ ہے میرا یہ مرجھایا ہوا دل

اٹھے گا لطف صحبت کا ابھی تو
نئے تم ہو نئے ہم ہیں نیا دل

کسی سے یوں دغا کرتے نہیں ہیں
ارے او بے مروت بے وفا دل

قیامت ہے تمہاری چلبلی شکل
قیامت ہے ہمارا چلبلا دل

ہمارا دل ہمارے کام کا ہے
کہاں پائیں تمہارے کام کا دل

بہت ہے جم کو اپنے جام پر ناز
ذرا لانا مرا ٹوٹا ہوا دل

کسی کا زور پھر چلتا نہیں ہے
کسی سے جب کسی کا مل گیا دل

اسے کس منہ سے کہتے ہو برا تم
تمہیں کس دل سے دیتا ہے دعا دل

گیا وہ داغ لے کر داغ دے کر
نشانی دے گیا دل لے گیا دل

حسیں اس کو برا سمجھے بچی جاں
برا بن کر بہت اچھا رہا دل

کہیں کیا کس نے لوٹا کس کو لوٹا
لٹے ہم تم لٹا جوبن لٹا دل

وہی اچھا تھا اس چھاتی کی سل سے
بدل دیتا کسی بت سے خدا دل

تمہاری راہ میں وہ بھی پڑا ہے
ذرا دیکھے ہوئے ٹوٹا ہوا دل

کوئی اب مفت بھی خواہاں نہیں ہے
ریاضؔ ایسا گیا گزرا ہوا دل