کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے ربن سے بندھا ہوا
وہ غزل کا لہجہ نیا نیا نہ کہا ہوا نہ سنا ہوا
جسے لے گئی ہے ابھی ہوا وہ ورق تھا دل کی کتاب کا
کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا کہیں آنسوؤں سے لکھا ہوا
کئی میل ریت کو کاٹ کر کوئی موج پھول کھلا گئی
کوئی پیڑ پیاس سے مر رہا ہے ندی کے پاس کھڑا ہوا
وہی خط کہ جس پہ جگہ جگہ دو مہکتے ہونٹوں کے چاند تھے
کسی بھولے بسرے سے طاق پر تہ گرد ہوگا دبا ہوا
مجھے حادثوں نے سجا سجا کے بہت حسین بنا دیا
مرا دل بھی جیسے دلہن کا ہاتھ ہو مہندیوں سے رچا ہوا
وہی شہر ہے وہی راستے وہی گھر ہے اور وہی لان بھی
مگر اس دریچے سے پوچھنا وہ درخت انار کا کیا ہوا
مرے ساتھ جگنو ہے ہم سفر مگر اس شرر کی بساط کیا
یہ چراغ کوئی چراغ ہے نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
غزل
کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے ربن سے بندھا ہوا
بشیر بدر