EN हिंदी
کوئی پتھر ہی کسی سمت سے آیا ہوتا | شیح شیری
koi patthar hi kisi samt se aaya hota

غزل

کوئی پتھر ہی کسی سمت سے آیا ہوتا

راج نرائن راز

;

کوئی پتھر ہی کسی سمت سے آیا ہوتا
پیڑ پھل دار میں اک راہ گزر کا ہوتا

اپنی آواز کے جادو پہ بھروسا کرتے
مور جو نقش تھا دیوار پہ ناچا ہوتا

ایک ہی پل کو ٹھہرنا تھا منڈیروں پہ تری
شام کی دھوپ ہوں میں کاش یہ جانا ہوتا

ایک ہی نقش سے سو عکس نمایاں ہوتے
کچھ سلیقے ہی سے الفاظ کو برتا ہوتا

لذتیں قرب کی اے رازؔ ہمیشہ رہتیں
شاخ صندل سے کوئی سانپ ہی لپٹا ہوتا