کوئی پتھر ہی کسی سمت سے آیا ہوتا
پیڑ پھل دار میں اک راہ گزر کا ہوتا
اپنی آواز کے جادو پہ بھروسا کرتے
مور جو نقش تھا دیوار پہ ناچا ہوتا
ایک ہی پل کو ٹھہرنا تھا منڈیروں پہ تری
شام کی دھوپ ہوں میں کاش یہ جانا ہوتا
ایک ہی نقش سے سو عکس نمایاں ہوتے
کچھ سلیقے ہی سے الفاظ کو برتا ہوتا
لذتیں قرب کی اے رازؔ ہمیشہ رہتیں
شاخ صندل سے کوئی سانپ ہی لپٹا ہوتا
غزل
کوئی پتھر ہی کسی سمت سے آیا ہوتا
راج نرائن راز