کوئی پری ہو اگر ہمکنار ہولی میں
تو اب کی سال ہو دونی بہار ہولی میں
کیا ہے وعدہ تو پھر بزم رقص میں آنا
نہ کیجیو مجھے تم شرمسار ہولی میں
سفید پیرہن اب تو اتار دے اللہ
بسنتی کپڑے ہوں اے گلعذار ہولی میں
ہمارے گھر میں اتاریں گے راہ اگر بھولے
ہیں مست ڈولی کے ان کے کہار ہولی میں
مجھے جو قمقمہ مارا تو کر دیا بسمل
عجیب رنگ سے کھیلے شکار ہولی میں
یہ رنگ پاش ہوئے ہیں وہ آج اے نادرؔ
ہے فرش بزم طرب لالہ زار ہولی میں
غزل
کوئی پری ہو اگر ہمکنار ہولی میں
نادر لکھنوی