کوئی پیغام محبت لب اعجاز تو دے
موت کی آنکھ بھی کھل جائے گی آواز تو دے
مقصد عشق ہم آہنگیٔ جزو و کل ہے
درد ہی درد سہی دل بوئے دم ساز تو دے
چشم مخمور کے عنوان نظر کچھ تو کھلیں
دل رنجور دھڑکنے کا کچھ انداز تو دے
اک ذرا ہو نشۂ حسن میں انداز خمار
اک جھلک عشق کے انجام کی آغاز تو دے
جو چھپائے نہ چھپے اور بتائے نہ بنے
دل عاشق کو ان آنکھوں سے کوئی راز تو دے
منتظر اتنی کبھی تھی نہ فضائے آفاق
چھیڑنے ہی کو ہوں پر درد غزل ساز تو دے
ہم اسیران قفس آگ لگا سکتے ہیں
فرصت نغمہ کبھی حسرت پرواز تو دے
عشق اک بار مشیت کو بدل سکتا ہے
عندیہ اپنا مگر کچھ نگۂ ناز تو دے
قرب و دیدار تو معلوم کسی کا پھر بھی
کچھ پتہ سا فلک تفرقہ پرداز تو دے
منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں
ابلق دہر کچھ انداز تگ و تاز تو دے
کان سے ہم تو فراقؔ آنکھ کا لیتے ہیں کام
آج چھپ کر کوئی آواز پر آواز تو دے
غزل
کوئی پیغام محبت لب اعجاز تو دے
فراق گورکھپوری