EN हिंदी
کوئی نظر نہ پڑ سکے مجھ حال مست پر | شیح شیری
koi nazar na paD sake mujh haal-mast par

غزل

کوئی نظر نہ پڑ سکے مجھ حال مست پر

پرویز ساحر

;

کوئی نظر نہ پڑ سکے مجھ حال مست پر
بیٹھا ہوا ہوں اس لیے پچھلی نشست پر

اک موج آتشیں رگ و پے میں اتر گئی
رکھا ہے اس نے جوں ہی کف دست، دست پر

کب راس آئی مجھ کو مری فتح کی خوشی
میں دل شکستہ ہو گیا اس کی شکست پر

ہے یاد مجھ کو آج بھی پہلا مکالمہ
قایم ہوں میں تو آج بھی عہد الست پر

کیسے سنبھال رکھا ہے اک ذات نے اسے
ششدر ہوں کائنات کے کل بند و بست پر

طے مرحلہ کیا ہے عدم سے وجود کا
پہنچا ہوں تب میں منزل نا ہست و ہست پر

ساحرؔ! میں اپنے آپ سے آگے نکل گیا
حیرت زدہ ہیں سب مری روحانی جست پر