EN हिंदी
کوئی نہیں تھا میرے مقابل بھی میں ہی تھا | شیح شیری
koi nahin tha mere muqabil bhi main hi tha

غزل

کوئی نہیں تھا میرے مقابل بھی میں ہی تھا

خوشبیر سنگھ شادؔ

;

کوئی نہیں تھا میرے مقابل بھی میں ہی تھا
شاید کہ اپنی راہ میں حائل بھی میں ہی تھا

اپنے ہی گرد میں نے کیا عمر بھر سفر
بھٹکایا مجھ کو جس نے وہ منزل بھی میں ہی تھا

ابھرا ہوں جن سے بارہا مجھ میں تھے سب بھنور
ڈوبا جہاں پہنچ کے وہ ساحل بھی میں ہی تھا

آساں نہیں تھا سازشیں کرنا مرے خلاف
جب اپنی آرزوؤں کا قاتل بھی میں ہی تھا

شب بھر ہر اک خیال مخاطب مجھی سے تھا
تنہائیوں میں رونق محفل بھی میں ہی تھا

دنیا سے بے نیازی بھی فطرت مری ہی تھی
دنیا کے رنج و درد میں شامل بھی میں ہی تھا

مجھ کو سمجھ نہ پائی مری زندگی کبھی
آسانیاں مجھی سے تھیں مشکل بھی میں ہی تھا

مجھ میں تھا خیر و شر کا عجب امتزاج شادؔ
میں خود ہی حق پرست تھا باطل بھی میں ہی تھا