کوئی نہیں ہے انتظار صبح وصال کے سوا
کوئی طلب نہیں مجھے تیرے جمال کے سوا
کس کے سوال پر یہ دل روتا ہے ساری ساری رات
کون حبیب ہے مرا تیرے خیال کے سوا
کوئی نہیں جو روح پر ایسا بھلا اثر کرے
نشے تمام ہیں وجود تیری مثال کے سوا
چشمۂ خواب سے مجھے دونوں جہاں عطا ہوئے
کچھ بھی نہیں ہے میرے پاس رخت مآل کے سوا
آؤ ہوا کے واسطے مل کے سبھی دعا کریں
رستہ کوئی دکھائی دے صورت حال کے سوا
غزل
کوئی نہیں ہے انتظار صبح وصال کے سوا
ارشد لطیف