EN हिंदी
کوئی نہیں ہے دیکھنے والا تو کیا ہوا | شیح شیری
koi nahin hai dekhne wala to kya hua

غزل

کوئی نہیں ہے دیکھنے والا تو کیا ہوا

کنور بے چین

;

کوئی نہیں ہے دیکھنے والا تو کیا ہوا
تیری طرف نہیں ہے اجالا تو کیا ہوا

چاروں طرف ہواؤں میں اس کی مہک تو ہے
مرجھا رہی ہے سانس کی مالا تو کیا ہوا

بدلے میں تجھ کو دے تو گئے بھوک اور پیاس
منہ سے جو تیرے چھینا نوالہ تو کیا ہوا

آنکھوں سے پی رہا ہوں ترے پیار کی شراب
گر چھٹ گیا ہے ہاتھ سے پیالا تو کیا ہوا

دھرتی کو میری ذات سے کچھ تو نمی ملی
پھوٹا ہے میرے پاؤں کا چھالا تو کیا ہوا

سارے جہاں نے مجھ پہ لگائی ہیں تہمتیں
تم نے بھی میرا نام اچھالا تو کیا ہوا

سر پر ہے ماں کے پیار کا آنچل پڑا ہوا
مجھ پر نہیں ہے کوئی دشالہ تو کیا ہوا

منچوں پہ چٹکلے ہیں لطیفے ہیں آج کل
منچوں پہ نے ہیں پنت نرالا تو کیا ہوا

اے زندگی تو پاس میں بیٹھی ہوئی تو ہے
شیشے میں تجھ کو گر نہیں ڈھالا تو کیا ہوا

آنکھوں کے گھر میں آئی نہیں روشنی کنورؔ
ٹوٹا ہے پھر سے نیند کا تالا تو کیا ہوا