کوئی مہلک سی بیماری ہوئی ہے
محبت آنکھ سے جاری ہوئی ہے
تیری رقت کی شدت سے ہے ظاہر
یہ میرے نام پر طاری ہوئی ہے
سزا ہے یہ معاشی ہجرتوں کی
بہت مصروف بیکاری ہوئی ہے
کبھی قسمت کو بیچاری نہ کہنا
کہ یہ تقدیر کی ماری ہوئی ہے
زباں چلتی نہیں ہے اس طرح سے
یہ آری کاٹ سے عاری ہوئی ہے
وہ ایسے خواب تھے سوتے ہوئے بھی
مری فرد عمل بھاری ہوئی ہے
یقیں خود اٹھ گیا ہے مجھ سے میرا
مری اتنی طرف داری ہوئی ہے
مجھے جب بولنا آیا ہے اخترؔ
تبھی لفظوں کی دل داری ہوئی ہے
غزل
کوئی مہلک سی بیماری ہوئی ہے
جنید اختر