کوئی میرا امام تھا ہی نہیں
میں کسی کا غلام تھا ہی نہیں
تم کہاں سے یہ بت اٹھا لائے
اس کہانی میں رام تھا ہی نہیں
جس قدر شور آب و گل تھا یہاں
اس قدر اہتمام تھا ہی نہیں
اس لیے سادھ لی تھی چپ میں نے
اس سے بہتر کلام تھا ہی نہیں
ہم نے اس وقت بھی محبت کی
جب محبت کا نام تھا ہی نہیں
تو کہاں راستے میں آ گئی ہے
زندگی تجھ سے کام تھا ہی نہیں
وقت نے لا کھڑا کیا اس جا
جو ہمارا مقام تھا ہی نہیں
اس لیے خاص کر دیا گیا عشق
عام لوگوں کا کام تھا ہی نہیں
غزل
کوئی میرا امام تھا ہی نہیں
عمران عامی