کوئی موسم بھی سزاوار محبت نہیں اب
زرد پتوں کو ہواؤں سے شکایت نہیں اب
شور ہی کرب تمنا کی علامت نہ رہے
کسی دیوار میں بھی گوش سماعت نہیں اب
جل چکے لوگ تو اب دھوپ میں ٹھنڈک آئی
تھی جو سورج کو درختوں سے عداوت نہیں اب
وہ تو پہلے بھی سبیلوں میں نہیں ہٹتی تھی
جس کے بکنے کی دکانوں پہ اجازت نہیں اب
اب تو ہر شخص میں برپا ہے خود اس کا محشر
ہے کوئی اور قیامت تو قیامت نہیں اب
غزل
کوئی موسم بھی سزاوار محبت نہیں اب
جوہر میر