EN हिंदी
کوئی مقام نہیں حد اعتبار کے بعد | شیح شیری
koi maqam nahin hadd-e-eatibar ke baad

غزل

کوئی مقام نہیں حد اعتبار کے بعد

سیف بجنوری

;

کوئی مقام نہیں حد اعتبار کے بعد
کہاں میں سجدہ کروں آستان یار کے بعد

اٹھوں تو جاؤں کہاں جائے پر بہار کے بعد
کہیں پناہ نہیں ان کی رہ گزار کے بعد

کہاں کا عزم ہے اے دل حصول کار کے بعد
اب اور بھی کوئی کعبہ ہے کوئے یار کے بعد

تباہ ہم ہوئے بیم و رجا میں آخر کار
کچھ انتظار سے پہلے کچھ انتظار کے بعد

گلا نہیں ہے جفا کا مگر سوال یہ ہے
ستائیں گے کسے پھر آپ جاں نثار کے بعد

کسے خبر ہے کہ گزرے گی اس اسیر پہ کیا
قفس ملے جسے رنگینیٔ بہار کے بعد

سحر کے ہوتے ہی رخصت ہوا مریض فراق
جہاں میں کام ہی کیا تھا اب انتظار کے بعد

کسی سے مشورۂ ترک عشق سیفؔ نہ کر
نہ سن کسی کی دل آزمودہ کار کے بعد