کوئی منزل نہ کوئی جادہ ہے
اب مسافر کا کیا ارادہ ہے
دل یہ کہتا ہے چاند نکلے گا
تیرگی کل سے کچھ زیادہ ہے
جتنے غم ہوں مجھے عطا کیجیئے
دامن دل بہت کشادہ ہے
کم سہی التفات دوست مگر
میری امید سے زیادہ ہے
ہم سویداؔ سے مل کے آئے ہیں
فکر رنگیں مزاج سادہ ہے

غزل
کوئی منزل نہ کوئی جادہ ہے
محمد نبی خاں جمال سویدا