کوئی منزل بھی نہیں ہے کوئی رستہ بھی نہیں
اور سب محو سفر ہیں کوئی رکتا بھی نہیں
ہر طرف بے رنگ سی گہری اداسی کا جماؤ
ایک رنگیں خواب جو نظروں سے ہٹتا بھی نہیں
کس طرح تھامے ہوئے ہیں خود کو اس بستی کے لوگ
کوئی متوازن نہیں ہے اور پھسلتا بھی نہیں
اک مسلسل سی یہ سعئ رائیگاں یہ کاوشیں
ایک پتھر سا یہ منظر جو پگھلتا بھی نہیں
بے سبب سی ٹیس دل میں مستقل ہوتی ہوئی
جذبۂ بیباک جو دل میں اترتا بھی نہیں
ہر طرف یہ دھوپ ہر دم تیز تر ہوتی ہوئی
موم کا اک شہر لیکن جو پگھلتا بھی نہیں

غزل
کوئی منزل بھی نہیں ہے کوئی رستہ بھی نہیں
بلبیر راٹھی