EN हिंदी
کوئی منزل بھی نہیں ہے کوئی رستہ بھی نہیں | شیح شیری
koi manzil bhi nahin hai koi rasta bhi nahin

غزل

کوئی منزل بھی نہیں ہے کوئی رستہ بھی نہیں

بلبیر راٹھی

;

کوئی منزل بھی نہیں ہے کوئی رستہ بھی نہیں
اور سب محو سفر ہیں کوئی رکتا بھی نہیں

ہر طرف بے رنگ سی گہری اداسی کا جماؤ
ایک رنگیں خواب جو نظروں سے ہٹتا بھی نہیں

کس طرح تھامے ہوئے ہیں خود کو اس بستی کے لوگ
کوئی متوازن نہیں ہے اور پھسلتا بھی نہیں

اک مسلسل سی یہ سعئ رائیگاں یہ کاوشیں
ایک پتھر سا یہ منظر جو پگھلتا بھی نہیں

بے سبب سی ٹیس دل میں مستقل ہوتی ہوئی
جذبۂ بیباک جو دل میں اترتا بھی نہیں

ہر طرف یہ دھوپ ہر دم تیز تر ہوتی ہوئی
موم کا اک شہر لیکن جو پگھلتا بھی نہیں