EN हिंदी
کوئی خوشبو نہ پھول ہوں میں تو | شیح شیری
koi KHushbu na phul hun main to

غزل

کوئی خوشبو نہ پھول ہوں میں تو

پروین کمار اشک

;

کوئی خوشبو نہ پھول ہوں میں تو
سر سے پا تک ببول ہوں میں تو

تیری درگاہ سے گلہ کیسا
خود کو بھی کب قبول ہوں میں تو

چاندنی مجھ کو سجدے کرتی ہے
تیرے قدموں کی دھول ہوں میں تو

جانے مجھ سے بچھڑ گیا ہے کون
ہر جنم میں ملول ہوں میں تو

طفل دل کی دعا لکھے جس کو
اس غزل کا سکول ہوں میں تو

کیوں دکھاتے ہو مجھ کو تلواریں
لاجونتی کا پھول ہوں میں تو

زخم کھاتا ہوں شکر کرتا ہوں
ہاں خلافت اصول ہوں میں تو

اشکؔ اس کاروباری دنیا میں
آدمی اک فضول ہوں میں تو