کوئی کمر کو تری کچھ جو ہو کمر تو کہے
کہ آدمی جو کہے بات سوچ کر تو کہے
مری حقیقت پر درد کو کبھی اس سے
بہ آہ و نالہ نہ کہوے بہ چشم تر تو کہے
یہ آرزو ہے جہنم کو بھی کہ آتش عشق
مجھے نہ شعلہ گر اپنا کہے شرر تو کہے
بقدر مایہ نہیں گر ہر اک کا رتبہ و نام
تو ہاں حباب کو دیکھیں کوئی گہر تو کہے
کہے جو کچھ مجھے ناصح نہیں وہ دیوانہ
کہ جانتا ہے کہے کا ہو کچھ اثر تو کہے
جل اٹھے شمع کے مانند قصہ خواں کی زباں
ہمارا قصۂ پرسوز لحظہ بھر تو کہے
صدا ہے خوں میں بھی منصور کے انا الحق کی
کہے اگر کوئی توحید اس قدر تو کہے
مجال ہے کہ ترے آگے فتنہ دم مارے
کہے گا اور تو کیا پہلے الحذر تو کہے
بنے بلا سے مرا مرغ نامہ بر بھنورا
کہ اس کو دیکھ کے وہ منہ سے خوش خبر تو کہے
ہر ایک شعر میں مضمون گریہ ہے میرے
مری طرح سے کوئی ذوقؔ شعر تر تو کہے
غزل
کوئی کمر کو تری کچھ جو ہو کمر تو کہے
شیخ ابراہیم ذوقؔ