EN हिंदी
کوئی جادو نہ فسانہ نہ فسوں ہے یوں ہے | شیح شیری
koi jadu na fasana na fusun hai yun hai

غزل

کوئی جادو نہ فسانہ نہ فسوں ہے یوں ہے

ریحانہ روحی

;

کوئی جادو نہ فسانہ نہ فسوں ہے یوں ہے
عاشقی سلسلۂ کار جنوں ہے یوں ہے

تو نہیں ہے تو ترے ہجر کی وحشت ہی سہی
کہ یہ وحشت ہی مرے دل کا سکوں ہے یوں ہے

کچھ نہیں کہنا بھی کہہ دیتا ہے سارا احوال
خامشی آئینۂ حال دروں ہے یوں ہے

جب سے دیکھا ہے محبت کو عداوت کرتے
تب سے ہونٹوں پہ مرے ہاں ہے نہ ہوں ہے یوں ہے

اب ترے ساتھ مرا جی نہیں لگتا سائیں
تو نے پوچھا تھا نمی آنکھ میں کیوں ہے یوں ہے

آج بھی کل کی طرح دیر سے گھر آئے گا وہ
پھر بہانے وہی دہرائے گا یوں ہے یوں ہے