کوئی جادو نہ فسانہ نہ فسوں ہے یوں ہے
عاشقی سلسلۂ کار جنوں ہے یوں ہے
تو نہیں ہے تو ترے ہجر کی وحشت ہی سہی
کہ یہ وحشت ہی مرے دل کا سکوں ہے یوں ہے
کچھ نہیں کہنا بھی کہہ دیتا ہے سارا احوال
خامشی آئینۂ حال دروں ہے یوں ہے
جب سے دیکھا ہے محبت کو عداوت کرتے
تب سے ہونٹوں پہ مرے ہاں ہے نہ ہوں ہے یوں ہے
اب ترے ساتھ مرا جی نہیں لگتا سائیں
تو نے پوچھا تھا نمی آنکھ میں کیوں ہے یوں ہے
آج بھی کل کی طرح دیر سے گھر آئے گا وہ
پھر بہانے وہی دہرائے گا یوں ہے یوں ہے
غزل
کوئی جادو نہ فسانہ نہ فسوں ہے یوں ہے
ریحانہ روحی