کوئی ہے بام پر دیکھا تو جائے
اجالے کا سفر دیکھا تو جائے
چراغ چشم تر دیکھا تو جائے
محبت کا اثر دیکھا تو جائے
جو بال و پر پہ نازاں ہو رہے ہیں
انہیں بے بال و پر دیکھا تو جائے
یہ نقشہ مسترد تو ہو چکا ہے
مگر بار دگر دیکھا تو جائے
غموں کی دھوپ میں لب پر تبسم
یہ جینے کا ہنر دیکھا تو جائے
ہوائے تند برگ بے شجر کو
اڑاتی ہے کدھر دیکھا تو جائے
ہماری حوصلہ مندی کو طارقؔ
میان خیر و شر دیکھا تو جائے

غزل
کوئی ہے بام پر دیکھا تو جائے
طارق متین