کوئی غزل ہو یہ لہجہ نہیں بدلتے ہم
کہ سچ ہو کتنا بھی کڑوا نہیں بدلتے ہم
کسی گلی سے یہ رشتہ نہیں بدلتے ہم
تمہارے بعد بھی رستہ نہیں بدلتے ہم
کھلی کتاب کے جیسی ہے زندگی اپنی
کسی کے سامنے چہرہ نہیں بدلتے ہم
لہولہان ہوں نظریں یا روح ہو زخمی
ہماری آنکھوں کا سپنا نہیں بدلتے ہم
تمام عمر ہی اب کیوں نہ ختم ہو جائے
تمہارے پیار کا قصہ نہیں بدلتے ہم
جو جیسا ہے اسے ویسا ہی ہم نے چاہا ہے
محبتوں میں یہ سکہ نہیں بدلتے ہم
وفا کی راہ کے پکے ہیں ہم مسافر بھی
ملیں نہ منزلیں رستہ نہیں بدلتے ہم
کسی کنیر کے پھولوں سے سرخ ہونٹھ اس کے
گلوں سے آج بھی رشتہ نہیں بدلتے ہم
تمام شکلیں ہمیں ایک جیسی لگتی ہیں
کسی کے واسطے چشمہ نہیں بدلتے ہم
کٹا پھٹا ہی سہی ہے یہ پیرہن سچ کا
نئے لباس سے کپڑا نہیں بدلتے ہم
یہ گل مہر کی ہیں شاخیں کسی کہ یاد لیے
کسی کی یاد کا چہرہ نہیں بدلتے ہم
کبھی یہیں پہ ہی آ کر وہ بیٹھ جاتی تھی
اسی لئے تو یہ کمرہ نہیں بدلتے ہم

غزل
کوئی غزل ہو یہ لہجہ نہیں بدلتے ہم
سدیش کمار مہر