کوئی احساس مکمل نہیں رہنے دیتا
درد کا ساتھ مسلسل نہیں رہنے دیتا
ہوش کی سرد نگاہوں سے تکے جاتا ہے
کون ہے جو مجھے پاگل نہیں رہنے دیتا
وقت طوفان بلا خیز کے گرداب میں ہے
سر پہ میرے مرا آنچل نہیں رہنے دیتا
ہاتھ پھیلاؤں تو چھو لیتا ہے جھونکے کی طرح
ایک پل بھی مجھے بے کل نہیں رہنے دیتا
خواب کے طاق پہ رکھی ہیں یہ آنکھیں کب سے
وہ مری نیند مکمل نہیں رہنے دیتا
میرے اس شہر میں اک آئنہ ایسا ہے کہ جو
مجھ کو اس شخص سے اوجھل نہیں رہنے دیتا

غزل
کوئی احساس مکمل نہیں رہنے دیتا
عنبرین صلاح الدین