کوئی دشمن کوئی ہمدم بھی نہیں ساتھ اپنے
تو نہیں ہے تو دو عالم بھی نہیں ساتھ اپنے
ساتھ کچھ دور ترے ہم بھی گئے تھے لیکن
اب کہاں جائیں کہ خود ہم بھی نہیں ساتھ اپنے
وہ بھی اک وقت تک خورشید بکف پھرتے تھے
یہ بھی اک وقت ہے شبنم بھی نہیں ساتھ اپنے
ناخن وقت نے کب زخم کو دہکایا ہے
ایسے اک وقت کہ مرہم بھی نہیں ساتھ اپنے
سامنے کتنی صلیبیں ہیں پئے بے گنہی
آج لخت دل مریم بھی نہیں ساتھ اپنے
پی کے سوچا کہ خریدیں گے غم دنیا بھی
طے ہوئے دام تو درہم بھی نہیں ساتھ اپنے
غزل
کوئی دشمن کوئی ہمدم بھی نہیں ساتھ اپنے
سلیمان اریب