کوئی دعا ہے یا پھر بد دعا ہے میرے لیے
یہ کون پچھلے پہر رو رہا ہے میرے لیے
میں معترف ہوں بہرحال اس کی چاہت کا
جو ترک دنیا کیے جا رہا ہے میرے لیے
پناہ اب کسی بھی جاں میں لے لیا جائے
کہ آسماں نہ زمیں کچھ بچا ہے میرے لیے
میں چاہ کے بھی جدا اس سے ہو نہیں سکتا
عجیب بے بسی کی انتہا ہے میرے لیے
سمجھ نہ پایا اسے میں نہ وہ مجھے رضوانؔ
یہ کوئی واہمہ یا حادثہ ہے میرے لیے
غزل
کوئی دعا ہے یا پھر بد دعا ہے میرے لیے
خان رضوان