EN हिंदी
کوئی دعا ہے یا پھر بد دعا ہے میرے لیے | شیح شیری
koi dua hai ya phir bad-dua hai mere liye

غزل

کوئی دعا ہے یا پھر بد دعا ہے میرے لیے

خان رضوان

;

کوئی دعا ہے یا پھر بد دعا ہے میرے لیے
یہ کون پچھلے پہر رو رہا ہے میرے لیے

میں معترف ہوں بہرحال اس کی چاہت کا
جو ترک دنیا کیے جا رہا ہے میرے لیے

پناہ اب کسی بھی جاں میں لے لیا جائے
کہ آسماں نہ زمیں کچھ بچا ہے میرے لیے

میں چاہ کے بھی جدا اس سے ہو نہیں سکتا
عجیب بے بسی کی انتہا ہے میرے لیے

سمجھ نہ پایا اسے میں نہ وہ مجھے رضوانؔ
یہ کوئی واہمہ یا حادثہ ہے میرے لیے