EN हिंदी
کوئی دن ہوگا کہ ہارے ہوئے لوٹ آئیں گے ہم | شیح شیری
koi din hoga ki haare hue lauT aaenge hum

غزل

کوئی دن ہوگا کہ ہارے ہوئے لوٹ آئیں گے ہم

راحیل فاروق

;

کوئی دن ہوگا کہ ہارے ہوئے لوٹ آئیں گے ہم
تیری گلیوں سے گئے بھی تو کہاں جائیں گے ہم

آنسوؤں کا تو تکلف ہی کیا آنکھوں نے
خون کے گھونٹ سے کیا شوق نہ فرمائیں گے ہم

زندگی پہلے ہی جینے کی طرح کب جی ہے
اب ترے نام پہ مرنے کی سزا پائیں گے ہم

کب تک اے عہد کرم باندھنے والے کب تک
دل کو سمجھائیں گے بہلائیں گے پھسلائیں گے ہم

آہ سے عرش معلےٰ کو نہ لرزا دیں گے
تو سمجھتا ہے قیامت ہی فقط ڈھائیں گے ہم

لاکھ مرتد سہی بے دین نہیں ہیں واعظ
بت نئے ہیں تو خدا کیا نہ نیا لائیں گے ہم

جاودانی کا تصور میں بھی آیا نہ خیال
ہم سمجھتے تھے ترے عشق میں مر جائیں گے ہم

بس اب اے دل کہ قسم کھائی ہے اس ظالم نے
جو تڑپتا ہے اسے اور بھی تڑپائیں گے ہم

دور تجھ سے تو قضا بھی نہیں لے جائے گی
سر بھی آخر تری دیوار سے ٹکرائیں گے ہم

بھولتا ہی نہیں ہم کو وہ ستم گر راحیلؔ
خاک اسے یاد نہ کرنے کی قسم کھائیں گے ہم