کوئی دل جوئی نہیں تھی کوئی شنوائی نہ تھی
جیسے اہل شہر سے میری شناسائی نہ تھی
مجھ کو اک چپ چاپ سے چہرے نے زخمی کر دیا
میں نے ایسی چوٹ ساری زندگی کھائی نہ تھی
غور سے دیکھیں تو ہے یادوں کے رنگوں کا کمال
اس قدر دل کش کبھی تصویر تنہائی نہ تھی
کر دیا جس نے مجھے پھر زندگی سے ہمکنار
تھا مرا ذوق یقیں تیری مسیحائی نہ تھی
باغباں کی اک ذرا سی لغزش ترتیب سے
موسم گل تھا مگر گلشن میں رعنائی نہ تھی
جن سے تھی انصاف کی امید اہل درد کو
غور سے دیکھا تو ان آنکھوں میں بینائی نہ تھی
نا خدا مجھ کو اپاہج کر گیا ورنہ اسدؔ
آسماں اونچا نہ تھا دریا میں گہرائی نہ تھی
غزل
کوئی دل جوئی نہیں تھی کوئی شنوائی نہ تھی
اسد جعفری