EN हिंदी
کوئی درپیش جب سفر آیا | شیح شیری
koi darpesh jab safar aaya

غزل

کوئی درپیش جب سفر آیا

خالد محمود امر

;

کوئی درپیش جب سفر آیا
تیرا چہرہ بھی بام پر آیا

لگ کے چلمن سے جھانکنا باہر
یاد وہ ادھ کھلا سا در آیا

میرے صیاد کو بھی حیرت ہے
کیوں نہ میں بھی لہو میں تر آیا

دیکھ سارے جہاں کو ٹھکرا کر
تیرا دیوانہ تیرے گھر آیا

تیرے در سے شفا ملے سب کو
اک عمرؔ ہی شکستہ تر آیا