کوئی درپیش جب سفر آیا
تیرا چہرہ بھی بام پر آیا
لگ کے چلمن سے جھانکنا باہر
یاد وہ ادھ کھلا سا در آیا
میرے صیاد کو بھی حیرت ہے
کیوں نہ میں بھی لہو میں تر آیا
دیکھ سارے جہاں کو ٹھکرا کر
تیرا دیوانہ تیرے گھر آیا
تیرے در سے شفا ملے سب کو
اک عمرؔ ہی شکستہ تر آیا

غزل
کوئی درپیش جب سفر آیا
خالد محمود امر