کوئی دریا ہوں جو کوزے میں سمٹ جاؤں گا
پیاس ہوں میں ترے ہونٹوں سے لپٹ جاؤں گا
ایک آواز سے ملتی ہیں کئی آوازیں
میں اندھیرے میں کسی سے بھی لپٹ جاؤں گا
جس طرح چاہیے کر لیجئے نقطے کا شمار
میں عدد کب ہوں کہ تعداد میں بٹ جاؤں گا
غور کر ایک نیا شعر ہوں نقاد غزل
تیرا بھیجا میں نہیں ہوں کہ الٹ جاؤں گا
کوئی نغمہ کوئی آواز نہیں ہوں اشہرؔ
بزم تنہائی ہوں خود سے ہی لپٹ جاؤں گا
غزل
کوئی دریا ہوں جو کوزے میں سمٹ جاؤں گا
اقبال اشہر قریشی